عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو
ہر ایک نقش تمنا کا ہو گیا دھندلا
ہر ایک زخم مرے دل کا بھر گیا یارو
بھٹک رہی تھی جو کشتی وہ غرق آب ہوئی
چڑھا ہوا تھا جو دریا اتر گیا یارو
وہ کون تھا وہ کہاں کا تھا کیا ہوا تھا اسے
سنا ہے آج کوئی شخص مر گیا یارو
میں جس کو لکھنے کے ارمان میں جیا اب تک
ورق ورق وہ فسانہ بکھر گیا یارو
غزل
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
شہریار