EN हिंदी
آہٹ جو سنائی دی ہے ہجر کی شب کی ہے | شیح شیری
aahaT jo sunai di hai hijr ki shab ki hai

غزل

آہٹ جو سنائی دی ہے ہجر کی شب کی ہے

شہریار

;

آہٹ جو سنائی دی ہے ہجر کی شب کی ہے
یہ رائے اکیلی میری نہیں ہے سب کی ہے

سنسان سڑک سناٹے اور لمبے سائے
یہ ساری فضا اے دل تیرے مطلب کی ہے

تری دید سے آنکھیں جی بھر کے سیراب ہوئیں
کس روز ہوا تھا ایسا بات یہ کب کی ہے

تجھے بھول گیا کبھی یاد نہیں کرتا تجھ کو
جو بات بہت پہلے کرنی تھی اب کی ہے

مرے سورج آ! مرے جسم پہ اپنا سایہ کر
بڑی تیز ہوا ہے سردی آج غضب کی ہے