زخموں کو رفو کر لیں دل شاد کریں پھر سے
خوابوں کی کوئی دنیا آباد کریں پھر سے
مدت ہوئی جینے کا احساس نہیں ہوتا
دل ان سے تقاضا کر بیداد کریں پھر سے
مجرم کے کٹہرے میں پھر ہم کو کھڑا کر دو
ہو رسم کہن تازہ فریاد کریں پھر سے
اے اہل جنوں دیکھو زنجیر ہوئے سائے
ہم کیسے انہیں سوچو آزاد کریں پھر سے
اب جی کے بہلنے کی ہے ایک یہی صورت
بیتی ہوئی کچھ باتیں ہم یاد کریں پھر سے
غزل
زخموں کو رفو کر لیں دل شاد کریں پھر سے
شہریار