یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا
میں تجھ سے جدا ہو کے بھی تنہا نہیں ہوتا
اس موڑ سے آگے بھی کوئی موڑ ہے ورنہ
یوں میرے لیے تو کبھی ٹھہرا نہیں ہوتا
کیوں میرا مقدر ہے اجالوں کی سیاہی
کیوں رات کے ڈھلنے پہ سویرا نہیں ہوتا
یا اتنی نہ تبدیل ہوئی ہوتی یہ دنیا
یا میں نے اسے خواب میں دیکھا نہیں ہوتا
سنتے ہیں سبھی غور سے آواز جرس کو
منزل کی طرف کوئی روانہ نہیں ہوتا
دل ترک تعلق پہ بھی آمادہ نہیں ہے
اور حق بھی ادا اس سے وفا کا نہیں ہوتا
غزل
یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا
شہریار