EN हिंदी
یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا | شیح شیری
ye kya hai mohabbat mein to aisa nahin hota

غزل

یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا

شہریار

;

یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا
میں تجھ سے جدا ہو کے بھی تنہا نہیں ہوتا

اس موڑ سے آگے بھی کوئی موڑ ہے ورنہ
یوں میرے لیے تو کبھی ٹھہرا نہیں ہوتا

کیوں میرا مقدر ہے اجالوں کی سیاہی
کیوں رات کے ڈھلنے پہ سویرا نہیں ہوتا

یا اتنی نہ تبدیل ہوئی ہوتی یہ دنیا
یا میں نے اسے خواب میں دیکھا نہیں ہوتا

سنتے ہیں سبھی غور سے آواز جرس کو
منزل کی طرف کوئی روانہ نہیں ہوتا

دل ترک تعلق پہ بھی آمادہ نہیں ہے
اور حق بھی ادا اس سے وفا کا نہیں ہوتا