EN हिंदी
جگر مراد آبادی شیاری | شیح شیری

جگر مراد آبادی شیر

147 شیر

کمال تشنگی ہی سے بجھا لیتے ہیں پیاس اپنی
اسی تپتے ہوئے صحرا کو ہم دریا سمجھتے ہیں

جگر مراد آبادی




کوچۂ عشق میں نکل آیا
جس کو خانہ خراب ہونا تھا

جگر مراد آبادی




لاکھ آفتاب پاس سے ہو کر گزر گئے
ہم بیٹھے انتظار سحر دیکھتے رہے

a million suns have come and gone
still I sat waiting watching out for dawn

جگر مراد آبادی




کیا خبر تھی خلش ناز نہ جینے دے گی
یہ تری پیار کی آواز نہ جینے دے گی

جگر مراد آبادی




کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے

جگر مراد آبادی




کیا بتاؤں کس قدر زنجیر پا ثابت ہوئے
چند تنکے جن کو اپنا آشیاں سمجھا تھا میں

جگر مراد آبادی




کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے

she was in my embrace
I myself was lost as long she stayed with me

جگر مراد آبادی




کوئی یہ کہہ دے گلشن گلشن
لاکھ بلائیں ایک نشیمن

جگر مراد آبادی




مجھے دے رہے ہیں تسلیاں وہ ہر ایک تازہ پیام سے
کبھی آ کے منظر عام پر کبھی ہٹ کے منظر عام سے

جگر مراد آبادی