EN हिंदी
جگر مراد آبادی شیاری | شیح شیری

جگر مراد آبادی شیر

147 شیر

آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے
جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے

جگر مراد آبادی




آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں

جگر مراد آبادی




آپ کے دشمن رہیں وقف خلش صرف تپش
آپ کیوں غم خواری بیمار ہجراں کیجیے

جگر مراد آبادی




آتش عشق وہ جہنم ہے
جس میں فردوس کے نظارے ہیں

جگر مراد آبادی




اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس
درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

جگر مراد آبادی




اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
تو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے

جگر مراد آبادی




احباب مجھ سے قطع تعلق کریں جگرؔ
اب آفتاب زیست لب بام آ گیا

جگر مراد آبادی




اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک
ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے

جگر مراد آبادی




ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش
شامل کسی کا خون تمنا ضرور تھا

جگر مراد آبادی