EN हिंदी
جگر مراد آبادی شیاری | شیح شیری

جگر مراد آبادی شیر

147 شیر

لبوں پہ موج تبسم نگہ میں برق غضب
کوئی بتائے یہ انداز برہمی کیا ہے

جگر مراد آبادی




جو ان پہ گزرتی ہے کس نے اسے جانا ہے
اپنی ہی مصیبت ہے اپنا ہی فسانا ہے

جگر مراد آبادی




کمال تشنگی ہی سے بجھا لیتے ہیں پیاس اپنی
اسی تپتے ہوئے صحرا کو ہم دریا سمجھتے ہیں

جگر مراد آبادی




کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں

جگر مراد آبادی




کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر

جگر مراد آبادی




جنون محبت یہاں تک تو پہنچا
کہ ترک محبت کیا چاہتا ہوں

جگر مراد آبادی




جو نہ سمجھے ناصحو پھر اس کو سمجھاتے ہو کیوں
ساتھ دیوانے کے دیوانے بنے جاتے ہو کیوں

why do you seek to moralize to those who do not comprehend
why with these lunatics do you become a lunatic my friend?

جگر مراد آبادی




جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے کچھ سمجھا
چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی مری

جگر مراد آبادی




کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ
میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا

where does lightening strike, priest, let us look
I will raise my glass you raise your holy book

جگر مراد آبادی