لبوں پہ موج تبسم نگہ میں برق غضب
کوئی بتائے یہ انداز برہمی کیا ہے
جگر مراد آبادی
جو ان پہ گزرتی ہے کس نے اسے جانا ہے
اپنی ہی مصیبت ہے اپنا ہی فسانا ہے
جگر مراد آبادی
کمال تشنگی ہی سے بجھا لیتے ہیں پیاس اپنی
اسی تپتے ہوئے صحرا کو ہم دریا سمجھتے ہیں
جگر مراد آبادی
کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں
جگر مراد آبادی
کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر
جگر مراد آبادی
جنون محبت یہاں تک تو پہنچا
کہ ترک محبت کیا چاہتا ہوں
جگر مراد آبادی
جو نہ سمجھے ناصحو پھر اس کو سمجھاتے ہو کیوں
ساتھ دیوانے کے دیوانے بنے جاتے ہو کیوں
why do you seek to moralize to those who do not comprehend
why with these lunatics do you become a lunatic my friend?
جگر مراد آبادی
جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے کچھ سمجھا
چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی مری
جگر مراد آبادی
کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ
میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا
where does lightening strike, priest, let us look
I will raise my glass you raise your holy book
جگر مراد آبادی