EN हिंदी
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے | شیح شیری
kuchh is ada se aaj wo pahlu-nashin rahe

غزل

کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے

جگر مراد آبادی

;

کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے

ایمان و کفر اور نہ دنیا و دیں رہے
اے عشق شاد باش کہ تنہا ہمیں رہے

عالم جب ایک حال پہ قائم نہیں رہے
کیا خاک اعتبار نگاہ یقیں رہے

میری زباں پہ شکوہ درد آفریں رہے
شاید مرے حواس ٹھکانے نہیں رہے

جب تک الٰہی جسم میں جان حزیں رہے
نظریں مری جوان رہیں دل حسیں رہے

یارب کسی کے راز محبت کی خیر ہو
دست جنوں رہے نہ رہے آستیں رہے

تا چند جوش عشق میں دل کی حفاظتیں
میری بلا سے اب وہ جنونی کہیں رہے

جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ہم تو اب ترے قابل نہیں رہے

مجھ کو نہیں قبول دو عالم کی وسعتیں
قسمت میں کوئے یار کی دو گز زمیں رہے

اے عشق نالہ کش تری غیرت کو کیا ہوا
ہے ہے عرق عرق وہ تن نازنیں رہے

درد و غم فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم اتنے حسیں رہے

اللہ رے چشم یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

ظالم اٹھا تو پردۂ وہم و گمان و فکر
کیا سامنے وہ مرحلہ ہائے یقیں رہے

ذات و صفات حسن کا عالم نظر میں ہے
محدود سجدہ کیا مرا ذوق جبیں رہے

کس درد سے کسی نے کہا آج بزم میں
اچھا یہ ہے وہ ننگ محبت یہیں رہے

سر دادگان عشق و محبت کی کیا کمی
قاتل کی تیغ تیز خدا کی زمیں رہے

اس عشق کی تلافئ مافات دیکھنا
رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے