ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
آنسو بھی تو ماؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
رستہ دیکھنے والی آنکھوں کے انہونے خواب
پیاس میں بھی دریاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں
پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
ایک ذرا سی جوت کے بل پر اندھیاروں سے بیر
پاگل دیئے ہواؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
رنگ سے خوشبوؤں کا ناتا ٹوٹتا جاتا ہے
پھول سے لوگ خزاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
ہم نے چپ رہنے کا عہد کیا ہے اور کم ظرف
ہم سے سخن آراؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
غزل
ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
افتخار عارف