کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں
عجب طرح کی گھٹن ہے ہوا کے لہجے میں
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
نہ جانے خلق خدا کون سے عذاب میں ہے
ہوائیں چیخ پڑیں التجا کے لہجے میں
کھلا فریب محبت دکھائی دیتا ہے
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں
یہی ہے مصلحت جبر احتیاط تو پھر
ہم اپنا حال کہیں گے چھپا کے لہجے میں
غزل
کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں
افتخار عارف