EN हिंदी
داغؔ دہلوی شیاری | شیح شیری

داغؔ دہلوی شیر

174 شیر

تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو

داغؔ دہلوی




تمہارا دل مرے دل کے برابر ہو نہیں سکتا
وہ شیشہ ہو نہیں سکتا یہ پتھر ہو نہیں سکتا

داغؔ دہلوی




تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

that new greeting in your note, from whom was it do say
if not my rival's signature, whose name was it then, pray?

داغؔ دہلوی




اڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں

داغؔ دہلوی




ادھر شرم حائل ادھر خوف مانع
نہ وہ دیکھتے ہیں نہ ہم دیکھتے ہیں

داغؔ دہلوی




ان کی فرمائش نئی دن رات ہے
اور تھوڑی سی مری اوقات ہے

داغؔ دہلوی




اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

داغؔ دہلوی




عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں

She is loth to come to me and keeps me well away
The cause for this hostility,she does not care to say

داغؔ دہلوی




عذر ان کی زبان سے نکلا
تیر گویا کمان سے نکلا

داغؔ دہلوی