نہ رونا ہے طریقہ کا نہ ہنسنا ہے سلیقہ کا
پریشانی میں کوئی کام جی سے ہو نہیں سکتا
داغؔ دہلوی
نہ سمجھا عمر گزری اس بت کافر کو سمجھاتے
پگھل کر موم ہو جاتا اگر پتھر کو سمجھاتے
داغؔ دہلوی
ناصح نے میرا حال جو مجھ سے بیاں کیا
آنسو ٹپک پڑے مرے بے اختیار آج
داغؔ دہلوی
ناامیدی بڑھ گئی ہے اس قدر
آرزو کی آرزو ہونے لگی
داغؔ دہلوی
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
داغؔ دہلوی
نگہ نکلی نہ دل کی چور زلف عنبریں نکلی
ادھر لا ہاتھ مٹھی کھول یہ چوری یہیں نکلی
داغؔ دہلوی
پھر گیا جب سے کوئی آ کے ہمارے در تک
گھر کے باہر ہی پڑے رہتے ہیں گھر چھوڑ دیا
داغؔ دہلوی
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے
داغؔ دہلوی
پھرتا ہے میرے دل میں کوئی حرف مدعا
قاصد سے کہہ دو اور نہ جائے ذرا سی دیر
داغؔ دہلوی