EN हिंदी
داغؔ دہلوی شیاری | شیح شیری

داغؔ دہلوی شیر

174 شیر

نہ رونا ہے طریقہ کا نہ ہنسنا ہے سلیقہ کا
پریشانی میں کوئی کام جی سے ہو نہیں سکتا

داغؔ دہلوی




نہ سمجھا عمر گزری اس بت کافر کو سمجھاتے
پگھل کر موم ہو جاتا اگر پتھر کو سمجھاتے

داغؔ دہلوی




ناصح نے میرا حال جو مجھ سے بیاں کیا
آنسو ٹپک پڑے مرے بے اختیار آج

داغؔ دہلوی




ناامیدی بڑھ گئی ہے اس قدر
آرزو کی آرزو ہونے لگی

داغؔ دہلوی




نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

داغؔ دہلوی




نگہ نکلی نہ دل کی چور زلف عنبریں نکلی
ادھر لا ہاتھ مٹھی کھول یہ چوری یہیں نکلی

داغؔ دہلوی




پھر گیا جب سے کوئی آ کے ہمارے در تک
گھر کے باہر ہی پڑے رہتے ہیں گھر چھوڑ دیا

داغؔ دہلوی




پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے

داغؔ دہلوی




پھرتا ہے میرے دل میں کوئی حرف مدعا
قاصد سے کہہ دو اور نہ جائے ذرا سی دیر

داغؔ دہلوی