EN हिंदी
کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے | شیح شیری
kabe ki hai hawas kabhi ku-e-butan ki hai

غزل

کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے

داغؔ دہلوی

;

کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

سن کے مرا فسانہ انہیں لطف آ گیا
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے

پیغام بر کی بات پر آپس میں رنج کیا
میری زبان کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے

کچھ تازگی ہو لذت آزار کے لیے
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے

جاں بر بھی ہو گئے ہیں بہت مجھ سے نیم جاں
کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے

حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے

وقت خرام ناز دکھا دو جدا جدا
یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے

فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے
دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے

قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے

جور رقیب و ظلم فلک کا نہیں خیال
تشویش ایک خاطر نامہرباں کی ہے

سن کر مرا فسانۂ غم اس نے یہ کہا
ہو جائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے

دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے

ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گرد راہ یہ کس کارواں کی ہے

کیونکہ نہ آتے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے

تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں
تدبیر کوئی بھی ستم ناگہاں کی ہے

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے