ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا
تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی ہمارے حق میں کمی نہ کرنا
داغؔ دہلوی
سن کے مرا فسانہ انہیں لطف آ گیا
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے
داغؔ دہلوی
سنائی جاتی ہیں در پردہ گالیاں مجھ کو
کہوں جو میں تو کہے آپ سے کلام نہیں
داغؔ دہلوی
طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی
چڑھی ہے یہ ندی اتر جائے گی
داغؔ دہلوی
تدبیر سے قسمت کی برائی نہیں جاتی
بگڑی ہوئی تقدیر بنائی نہیں جاتی
داغؔ دہلوی
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
تجھے ہر بہانے سے ہم دیکھتے ہیں
داغؔ دہلوی
ٹھوکر بھی راہ عشق میں کھانی ضرور ہے
چلتا نہیں ہوں راہ کو ہموار دیکھ کر
داغؔ دہلوی
تم اگر اپنی گوں کے ہو معشوق
اپنے مطلب کے یار ہم بھی ہیں
داغؔ دہلوی
تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنے
داغؔ دہلوی