EN हिंदी
داغؔ دہلوی شیاری | شیح شیری

داغؔ دہلوی شیر

174 شیر

پوچھئے مے کشوں سے لطف شراب
یہ مزا پاکباز کیا جانیں

داغؔ دہلوی




قتل کی سن کے خبر عید منائی میں نے
آج جس سے مجھے ملنا تھا گلے مل آیا

داغؔ دہلوی




رہ گئے لاکھوں کلیجہ تھام کر
آنکھ جس جانب تمہاری اٹھ گئی

داغؔ دہلوی




رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا

داغؔ دہلوی




رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے

داغؔ دہلوی




روح کس مست کی پیاسی گئی مے خانے سے
مے اڑی جاتی ہے ساقی ترے پیمانے سے

داغؔ دہلوی




ساقیا تشنگی کی تاب نہیں
زہر دے دے اگر شراب نہیں

داغؔ دہلوی




ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے

داغؔ دہلوی




ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے نیاز کیا جانیں

داغؔ دہلوی