سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
داغؔ دہلوی
سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے
داغؔ دہلوی
سمجھو پتھر کی تم لکیر اسے
جو ہماری زبان سے نکلا
داغؔ دہلوی
سر مرا کاٹ کے پچھتائیے گا
جھوٹی پھر کس کی قسم کھایئے گا
داغؔ دہلوی
شب وصل کی کیا کہوں داستاں
زباں تھک گئی گفتگو رہ گئی
داغؔ دہلوی
شب وصل ضد میں بسر ہو گئی
نہیں ہوتے ہوتے سحر ہو گئی
داغؔ دہلوی
شب وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
داغؔ دہلوی
شرکت غم بھی نہیں چاہتی غیرت میری
غیر کی ہو کے رہے یا شب فرقت میری
داغؔ دہلوی
شوخی سے ٹھہرتی نہیں قاتل کی نظر آج
یہ برق بلا دیکھیے گرتی ہے کدھر آج
داغؔ دہلوی