EN हिंदी
داغؔ دہلوی شیاری | شیح شیری

داغؔ دہلوی شیر

174 شیر

مرگ دشمن کا زیادہ تم سے ہے مجھ کو ملال
دشمنی کا لطف شکوؤں کا مزا جاتا رہا

داغؔ دہلوی




میرے قابو میں نہ پہروں دل ناشاد آیا
وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا

داغؔ دہلوی




میرؔ کا رنگ برتنا نہیں آساں اے داغؔ
اپنے دیواں سے ملا دیکھیے دیواں ان کا

داغؔ دہلوی




ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے

those who meet you lovingly then into dust you grind
those who bear affection, dear, are very hard to find

داغؔ دہلوی




مری آہ کا تم اثر دیکھ لینا
وہ آئیں گے تھامے جگر دیکھ لینا

داغؔ دہلوی




مجھ گنہ گار کو جو بخش دیا
تو جہنم کو کیا دیا تو نے

if you have forgiven offences such as mine
then to nether world what did you consign

داغؔ دہلوی




مجھ کو مزا ہے چھیڑ کا دل مانتا نہیں
گالی سنے بغیر ستمگر کہے بغیر

داغؔ دہلوی




مجھے یاد کرنے سے یہ مدعا تھا
نکل جائے دم ہچکیاں آتے آتے

داغؔ دہلوی




نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

داغؔ دہلوی