EN हिंदी
پوچھا نہ جائے گا جو وطن سے نکل گیا | شیح شیری
puchha na jaega jo watan se nikal gaya

غزل

پوچھا نہ جائے گا جو وطن سے نکل گیا

امیر مینائی

;

پوچھا نہ جائے گا جو وطن سے نکل گیا
بیکار ہے جو دانت دہن سے نکل گیا

ٹھہریں کبھی کجوں میں نہ دم بھر بھی راست رو
آیا کماں میں تیر تو سن سے نکل گیا

خلعت پہن کے آنے کی تھی گھر میں آرزو
یہ حوصلہ بھی گور و کفن سے نکل گیا

پہلو میں میرے دل کو نہ اے درد کر تلاش
مدت ہوئی غریب وطن سے نکل گیا

مرغان باغ تم کو مبارک ہو سیر گل
کانٹا تھا ایک میں سو چمن سے نکل گیا

کیا رنگ تیری زلف کی بو نے اڑا دیا
کافور ہو کے مشک ختن سے نکل گیا

پیاسا ہوں اس قدر کہ مرا دل جو گر پڑا
پانی ابل کے چاہ ذقن سے نکل گیا

سارا جہان نام کے پیچھے تباہ ہے
انسان کیا عقیق یمن سے نکل گیا

کانٹوں نے بھی نہ دامن گلچیں پکڑ لیا
بلبل کو ذبح کر کے چمن سے نکل گیا

کیا شوق تھا جو یاد سگ یار نے کیا
ہر استخواں تڑپ کے بدن سے نکل گیا

اے سبزہ رنگ خط بھی بنا اب تو بوسہ دے
بیگانہ تھا جو سبزہ چمن سے نکل گیا

منظور عشق کو جو ہوا اوج حسن پر
قمری کا نالہ سرو چمن سے نکل گیا

مد نظر رہی ہمیں ایسی رضائے دوست
کاٹی زباں جو شکوہ دہن سے نکل گیا

طاؤس نے دکھائے جو اپنے بدن کے داغ
روتا ہوا سحاب چمن سے نکل گیا

صحرا میں جب ہوئی مجھے خوش چشموں کی تلاش
کوسوں میں آہوان ختن سے نکل گیا

خنجر کھنچا جو میان سے چمکا میان صف
جوہر کھلے جو مرد وطن سے نکل گیا

میں شعر پڑھ کے بزم سے کیا اٹھ گیا امیرؔ
بلبل چہک کے صحن چمن سے نکل گیا