لبھاتا ہے اگرچہ حسن دریا ڈر رہا ہوں میں
سبب یہ ہے کہ اک مدت کنارے پر رہا ہوں میں
یہ جھونکے جن سے دل میں تازگی آنکھوں میں ٹھنڈک ہے
انہی جھونکوں سے مرجھایا ہوا شب بھر رہا ہوں میں
ترے آنے کا دن ہے تیرے رستے میں بچھانے کو
چمکتی دھوپ میں سائے اکٹھے کر رہا ہوں میں
کوئی کمرہ ہے جس کے طاق میں اک شمع جلتی ہے
اندھیری رات ہے اور سانس لیتے ڈر رہا ہوں میں
مجھے معلوم ہے اہل وفا پر کیا گزرتی ہے
سمجھ کر سوچ کر تجھ سے محبت کر رہا ہوں میں
غزل
لبھاتا ہے اگرچہ حسن دریا ڈر رہا ہوں میں
احمد مشتاق