کس شے پہ یہاں وقت کا سایہ نہیں ہوتا
اک خواب محبت ہے کہ بوڑھا نہیں ہوتا
وہ وقت بھی آتا ہے جب آنکھوں میں ہماری
پھرتی ہیں وہ شکلیں جنہیں دیکھا نہیں ہوتا
بارش وہ برستی ہے کہ بھر جاتے ہیں جل تھل
دیکھو تو کہیں ابر کا ٹکڑا نہیں ہوتا
گھر جاتا ہے دل درد کی ہر بند گلی میں
چاہو کہ نکل جائیں تو رستہ نہیں ہوتا
یادوں پہ بھی جم جاتی ہے جب گرد زمانہ
ملتا ہے وہ پیغام کہ پہنچا نہیں ہوتا
تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے
لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا
کیا اس سے گلہ کیجیئے بربادئ دل کا
ہم سے بھی تو اظہار تمنا نہیں ہوتا
غزل
کس شے پہ یہاں وقت کا سایہ نہیں ہوتا
احمد مشتاق