دنیا میں سراغ رہ دنیا نہیں ملتا
دریا میں اتر جائیں تو دریا نہیں ملتا
باقی تو مکمل ہے تمنا کی عمارت
اک گزرے ہوئے وقت کا شیشہ نہیں ملتا
جاتے ہوئے ہر چیز یہیں چھوڑ گیا تھا
لوٹا ہوں تو اک دھوپ کا ٹکڑا نہیں ملتا
جو دل میں سمائے تھے وہ اب شامل دل ہیں
اس آئنے میں عکس کسی کا نہیں ملتا
تو نے ہی تو چاہا تھا کہ ملتا رہوں تجھ سے
تیری یہی مرضی ہے تو اچھا نہیں ملتا
دل میں تو دھڑکنے کی صدا بھی نہیں مشتاقؔ
رستے میں ہے وہ بھیڑ کہ رستہ نہیں ملتا
غزل
دنیا میں سراغ رہ دنیا نہیں ملتا
احمد مشتاق