تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کر دیکھ لیتا ہوں
تمہارے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں
ہوائیں جن کی اندھی کھڑکیوں پر سر پٹکتی ہیں
میں ان کمروں میں پھر شمعیں جلا کر دیکھ لیتا ہوں
عجب کیا اس قرینے سے کوئی صورت نکل آئے
تری باتوں کو خوابوں سے ملا کر دیکھ لیتا ہوں
سحر دم کرچیاں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی ملتی ہیں
تو بستر جھاڑ کر چادر ہٹا کر دیکھ لیتا ہوں
بہت دل کو دکھاتا ہے کبھی جب درد مہجوری
تری یادوں کی جانب مسکرا کر دیکھ لیتا ہوں
اڑا کر رنگ کچھ ہونٹوں سے کچھ آنکھوں سے کچھ دل سے
گئے لمحوں کو تصویریں بنا کر دیکھ لیتا ہوں
نہیں ہو تم بھی وہ اب مجھ سے یارو کیا چھپاؤ گے
ہوا کی سمت کو مٹی اڑا کر دیکھ لیتا ہوں
سنا ہے بے نیازی ہی علاج ناامیدی ہے
یہ نسخہ بھی کوئی دن آزما کر دیکھ لیتا ہوں
محبت مر گئی مشتاقؔ لیکن تم نہ مانو گے
میں یہ افواہ بھی تم کو سنا کر دیکھ لیتا ہوں
غزل
تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کر دیکھ لیتا ہوں
احمد مشتاق