مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہو جائے گا
بس یہی نہ درد کچھ دل کا سوا ہو جائے گا
وہ مرے دل کی پریشانی سے افسردہ ہو کیوں
دل کا کیا ہے کل کو پھر اچھا بھلا ہو جائے گا
گھر سے، کچھ خوابوں سے ملنے کے لیے نکلے تھے ہم
کیا خبر تھی زندگی سے سامنا ہو جائے گا
رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی
کیا ترے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہو جائے گا
کیسے آ سکتی ہے ایسی دل نشیں دنیا کو موت
کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا
غزل
مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہو جائے گا
احمد مشتاق