EN हिंदी
زندگی شیاری | شیح شیری

زندگی

163 شیر

یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو

ندا فاضلی




خاک اور خون سے اک شمع جلائی ہے نشورؔ
موت سے ہم نے بھی سیکھی ہے حیات آرائی

نشور واحدی




زندگی پرچھائیاں اپنی لیے
آئنوں کے درمیاں سے آئی ہے

نشور واحدی




ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے
زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا

پروین شاکر




کبھی کھولے تو کبھی زلف کو بکھرائے ہے
زندگی شام ہے اور شام ڈھلی جائے ہے

پریم واربرٹنی




کچھ تو ہے بات جو آتی ہے قضا رک رک کے
زندگی قرض ہے قسطوں میں ادا ہوتی ہے

قمر جلال آبادی




زندگی محو خود آرائی تھی
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ہم نے

روش صدیقی