EN हिंदी
فکر نو ذوق تپاں سے آئی ہے | شیح شیری
fikr-e-nau zauq-e-tapan se aai hai

غزل

فکر نو ذوق تپاں سے آئی ہے

نشور واحدی

;

فکر نو ذوق تپاں سے آئی ہے
گرد تھوڑی کارواں سے آئی ہے

زندگی پرچھائیاں اپنی لیے
آئنوں کے درمیاں سے آئی ہے

سیکھ کر جادو وہ چشم مے فروش
محفل جادوگراں سے آئی ہے

رات کے افسوں جگاتے ہی رہے
نیند اپنی داستاں سے آئی ہے

ہو لیے ہم زندگی کے ساتھ ساتھ
یہ نہیں پوچھا کہاں سے آئی ہے

داغ ہائے سینہ میں یہ تازگی
التفات ناگہاں سے آئی ہے

کیا خبر تجھ کو اسیر نو بہار
کتنی رعنائی خزاں سے آئی ہے

انقلاب نو میں یہ قوت نشورؔ
میرے دست ناتواں سے آئی ہے