EN हिंदी
زندگی شیاری | شیح شیری

زندگی

163 شیر

خارؔ الفت کی بات جانے دو
زندگی کس کو سازگار آئی

خار دہلوی




مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

خواجہ میر دردؔ




سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں
زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں

خواجہ میر دردؔ




زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے!
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

خواجہ میر دردؔ




آخر اک روز تو پیوند زمیں ہونا ہے
جامۂ زیست نیا اور پرانا کیسا

لالہ مادھو رام جوہر




یہ کیا کہوں کہ مجھ کو کچھ گناہ بھی عزیز ہیں
یہ کیوں کہوں کہ زندگی ثواب کے لیے نہیں

محبوب خزاں




ہم کو بھی خوش نما نظر آئی ہے زندگی
جیسے سراب دور سے دریا دکھائی دے

محشر بدایونی