خواب دیدار نہ دیکھا ہم نے
غائبانہ انہیں چاہا ہم نے
کم نہ تھا عشق ازل سے رسوا
کر دیا اور بھی رسوا ہم نے
زندگی محو خود آرائی تھی
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ہم نے
راہ سے دور نظر آئے جو خار
ان کو پلکوں سے اٹھایا ہم نے
لے لیا کوہ حوادث سر پر
وقت کے دل کو نہ توڑا ہم نے
کر دیا فاش ترا غم لے کر
راز اعجاز مسیحا ہم نے
کوہ سنگین حقائق تھا جہاں
حسن کا خواب تراشا ہم نے
درد آلودۂ درماں تھا روشؔ
درد کو درد بنایا ہم نے
غزل
خواب دیدار نہ دیکھا ہم نے
روش صدیقی