کبھی کھولے تو کبھی زلف کو بکھرائے ہے
زندگی شام ہے اور شام ڈھلی جائے ہے
ہر خوشی موم کی گڑیا ہے مقدس گڑیا
تاج شعلوں کا زمانہ جسے پہنائے ہے
خامشی کیا کسی گنبد کی فضا ہے جس میں
گونج کے میری ہی آواز پلٹ آئے ہے
زندگی پوچھے ہے رو کر کسی بیوہ کی طرح
چوڑیاں کون مرے ہاتھ میں پہنائے ہے
دل کسی جام لبالب کی طرح لہرا کر
پھر ترے دست حنائی میں چھلک جائے ہے
کون سمجھے مرے اخلاص کی عظمت کو بھلا
میں وہ دریا ہوں جو قطرے میں سما جائے ہے
پریمؔ دیکھو تو سہی زخموں کے زیور کی پھبن
شاعری بن کے دلہن اور بھی شرمائے ہے
غزل
کبھی کھولے تو کبھی زلف کو بکھرائے ہے
پریم واربرٹنی