EN हिंदी
زندگی شیاری | شیح شیری

زندگی

163 شیر

یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی




زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں

جگر مراد آبادی




ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج
ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے

کیف بھوپالی




زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں مجبوریاں تنہائیاں

کیف بھوپالی




درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے زندہ رہئے
زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے

کلیم عاجز




تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں
زندگی درد محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

کلیم عاجز




زندگی مائل فریاد و فغاں آج بھی ہے
کل بھی تھا سینے پہ اک سنگ گراں آج بھی ہے

کلیم عاجز