EN हिंदी
یاد شیاری | شیح شیری

یاد

237 شیر

بھولے بسرے ہوئے غم پھر ابھر آتے ہیں کئی
آئینہ دیکھیں تو چہرے نظر آتے ہیں کئی

فضیل جعفری




گھر سے باہر نہیں نکلا جاتا
روشنی یاد دلاتی ہے تری

فضیل جعفری




کسی کی یاد سے دل کا اندھیرا اور بڑھتا ہے
یہ گھر میرے سلگنے سے منور ہو نہیں سکتا

غلام حسین ساجد




یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے
آ کہ ہر بات بھلا دی ہم نے

غلام محمد قاصر




بجلی چمکی تو ابر رویا
یاد آ گئی کیا ہنسی کسی کی

گویا فقیر محمد




یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں
سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی

گلزار




اک تری یاد سے اک تیرے تصور سے ہمیں
آ گئے یاد کئی نام حسیناؤں کے

حبیب جالب