یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے
آ کہ ہر بات بھلا دی ہم نے
گلشن دل سے گزرنے کے لیے
غم کو رفتار صبا دی ہم نے
اب اسی آگ میں جلتے ہیں جسے
اپنے دامن سے ہوا دی ہم نے
دن اندھیروں کی طلب میں گزرا
رات کو شمع جلا دی ہم نے
رہگزر بجتی ہے پائل کی طرح
کس کی آہٹ کو صدا دی ہم نے
قصر معنی کے مکیں تھے پھر بھی
طے نہ کی لفظ کی وادی ہم نے
غم کی تشریح بہت مشکل تھی
اپنی تصویر دکھا دی ہم نے
غزل
یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے
غلام محمد قاصر