EN हिंदी
یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے | شیح شیری
yaad ashkon mein baha di humne

غزل

یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے

غلام محمد قاصر

;

یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے
آ کہ ہر بات بھلا دی ہم نے

گلشن دل سے گزرنے کے لیے
غم کو رفتار صبا دی ہم نے

اب اسی آگ میں جلتے ہیں جسے
اپنے دامن سے ہوا دی ہم نے

دن اندھیروں کی طلب میں گزرا
رات کو شمع جلا دی ہم نے

رہگزر بجتی ہے پائل کی طرح
کس کی آہٹ کو صدا دی ہم نے

قصر معنی کے مکیں تھے پھر بھی
طے نہ کی لفظ کی وادی ہم نے

غم کی تشریح بہت مشکل تھی
اپنی تصویر دکھا دی ہم نے