جہاں بھر میں مرے دل سا کوئی گھر ہو نہیں سکتا
کہ ایسی خاک پر ایسا سمندر ہو نہیں سکتا
رواں رہتا ہے کیسے چین سے اپنے کناروں میں
یہ دریا میری بیتابی کا مظہر ہو نہیں سکتا
کسی کی یاد سے دل کا اندھیرا اور بڑھتا ہے
یہ گھر میرے سلگنے سے منور ہو نہیں سکتا
بہت بے تاب ہوتا ہوں میں اس کو دیکھ کر لیکن
ستارہ تیری آنکھوں سے تو بڑھ کر ہو نہیں سکتا
یہ موج عمر ہر شے کو بہت تبدیل کرتی ہے
مگر جو سانس لیتا ہے وہ پتھر ہو نہیں سکتا
میں اس دنیا میں رہتا ہوں کہ جس دنیا کے لوگوں کو
خوشی کا ایک لمحہ بھی میسر ہو نہیں سکتا
غزل
جہاں بھر میں مرے دل سا کوئی گھر ہو نہیں سکتا
غلام حسین ساجد