بھولے بسرے ہوئے غم پھر ابھر آتے ہیں کئی
آئینہ دیکھیں تو چہرے نظر آتے ہیں کئی
وہ بھی اک شام تھی جب ساتھ چھٹا تھا اس کا
واہمے دل میں سر شام در آتے ہیں کئی
پاؤں کی دھول بھی بن جاتی ہے دشمن اپنی
گھر سے نکلو تو پھر ایسے سفر آتے ہیں کئی
قریۂ جاں سے گزرنا بھی کچھ آسان نہیں
راہ میں جعفری شیشے کے گھر آتے ہیں کئی
غزل
بھولے بسرے ہوئے غم پھر ابھر آتے ہیں کئی
فضیل جعفری