ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
فراق گورکھپوری
غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
فراق گورکھپوری
جس میں ہو یاد بھی تری شامل
ہائے اس بے خودی کو کیا کہیے
فراق گورکھپوری
خود مجھ کو بھی تا دیر خبر ہو نہیں پائی
آج آئی تری یاد اس آہستہ روی سے
فراق گورکھپوری
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
فراق گورکھپوری
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
فراق گورکھپوری
تو یاد آیا ترے جور و ستم لیکن نہ یاد آئے
محبت میں یہ معصومی بڑی مشکل سے آتی ہے
You I did remember, your torments all forgot
such innocence in love, is with hardship wrought
فراق گورکھپوری