EN हिंदी
یاد شیاری | شیح شیری

یاد

237 شیر

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

فراق گورکھپوری




غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں

فراق گورکھپوری




جس میں ہو یاد بھی تری شامل
ہائے اس بے خودی کو کیا کہیے

فراق گورکھپوری




خود مجھ کو بھی تا دیر خبر ہو نہیں پائی
آج آئی تری یاد اس آہستہ روی سے

فراق گورکھپوری




شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

فراق گورکھپوری




طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

فراق گورکھپوری




تو یاد آیا ترے جور و ستم لیکن نہ یاد آئے
محبت میں یہ معصومی بڑی مشکل سے آتی ہے

You I did remember, your torments all forgot
such innocence in love, is with hardship wrought

فراق گورکھپوری