EN हिंदी
یاد شیاری | شیح شیری

یاد

237 شیر

جن کی یادوں سے روشن ہیں میری آنکھیں
دل کہتا ہے ان کو بھی میں یاد آتا ہوں

حبیب جالب




کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں
بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں

حبیب جالب




کس منہ سے کریں ان کے تغافل کی شکایت
خود ہم کو محبت کا سبق یاد نہیں ہے

حفیظ بنارسی




دنیا میں ہیں کام بہت
مجھ کو اتنا یاد نہ آ

حفیظ ہوشیارپوری




کہیں یہ ترک محبت کی ابتدا تو نہیں
وہ مجھ کو یاد کبھی اس قدر نہیں آئے

حفیظ ہوشیارپوری




بھلائی نہیں جا سکیں گی یہ باتیں
تمہیں یاد آئیں گے ہم یاد رکھنا

حفیظ جالندھری




ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے

حفیظ جالندھری