EN हिंदी
سنگ در دیکھ کے سر یاد آیا | شیح شیری
sang-e-dar dekh ke sar yaad aaya

غزل

سنگ در دیکھ کے سر یاد آیا

فانی بدایونی

;

سنگ در دیکھ کے سر یاد آیا
کوئی دیوانہ مگر یاد آیا

پھر وہ انداز نظر یاد آیا
چاک دل تا بہ جگر یاد آیا

ذوق ارباب نظر یاد آیا
سجدہ بے منت سر یاد آیا

ہر تبسم پہ یہ کھاتا ہوں فریب
کہ انہیں دیدۂ تر یاد آیا

پھر ترا نقش قدم ہے درکار
سجدۂ راہ گزر یاد آیا

جمع کرتا ہوں غبار رہ دوست
سر شوریدہ مگر یاد آیا

ہائے وہ معرکۂ ناوک ناز
دل بچایا تو جگر یاد آیا

آئینہ اب نہیں دیکھا جاتا
میں بعنوان دگر یاد آیا

درد کو پھر ہے مرے دل کی تلاش
خانہ برباد کو گھر یاد آیا

اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانیؔ
کیا کروگے وہ اگر یاد آیا