تمہیں کیوں کر بتائیں زندگی کو کیا سمجھتے ہیں
سمجھ لو سانس لینا خودکشی کرنا سمجھتے ہیں
کسی بدمست کو راز آشنا سب کا سمجھتے ہیں
نگاہ یار تجھ کو کیا بتائیں کیا سمجھتے ہیں
بس اتنے پر ہمیں سب لوگ دیوانہ سمجھتے ہیں
کہ اس دنیا کو ہم اک دوسری دنیا سمجھتے ہیں
کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے
ترے دم بھر کے مل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں
امیدوں میں بھی ان کی ایک شان بے نیازی ہے
ہر آسانی کو جو دشوار ہو جانا سمجھتے ہیں
یہی ضد ہے تو خیر آنکھیں اٹھاتے ہیں ہم اس جانب
مگر اے دل ہم اس میں جان کا کھٹکا سمجھتے ہیں
کہیں ہوں تیرے دیوانے ٹھہر جائیں تو زنداں ہے
جدھر کو منہ اٹھا کر چل پڑے صحرا سمجھتے ہیں
جہاں کی فطرت بیگانہ میں جو کیف غم بھر دیں
وہی جینا سمجھتے ہیں وہی مرنا سمجھتے ہیں
ہمارا ذکر کیا ہم کو تو ہوش آیا محبت میں
مگر ہم قیس کا دیوانہ ہو جانا سمجھتے ہیں
نہ شوخی شوخ ہے اتنی نہ پرکار اتنی پرکاری
نہ جانے لوگ تیری سادگی کو کیا سمجھتے ہیں
بھلا دیں ایک مدت کی جفائیں اس نے یہ کہہ کر
تجھے اپنا سمجھتے تھے تجھے اپنا سمجھتے ہیں
یہ کہہ کر آبلہ پا روندتے جاتے ہیں کانٹوں کو
جسے تلووں میں کر لیں جذب اسے صحرا سمجھتے ہیں
یہ ہستی نیستی سب موج خیزی ہے محبت کی
نہ ہم قطرہ سمجھتے ہیں نہ ہم دریا سمجھتے ہیں
فراقؔ اس گردش ایام سے کب کام نکلا ہے
سحر ہونے کو بھی ہم رات کٹ جانا سمجھتے ہیں
غزل
تمہیں کیوں کر بتائیں زندگی کو کیا سمجھتے ہیں
فراق گورکھپوری