متاع برگ و ثمر وہی ہے شباہت رنگ و بو وہی ہے
کھلا کہ اس بار بھی چمن پر گرفت دست نمو وہی ہے
حکایت عشق سے بھی دل کا علاج ممکن نہیں کہ اب بھی
فراق کی تلخیاں وہی ہیں وصال کی آرزو وہی ہے
بدل دیے ہیں کسی نے افسوں سے کام لے کر تمام مہرے
کہ سحر امروز کے مقابل نہ میں وہی ہوں نہ تو وہی ہے
زمیں پہ بہتی ہوئی یہ آنکھیں فلک پہ رکتے ہوئے یہ تارے
سنا ہے یہ پھول ہیں اسی کے سنا ہے یہ آب جو وہی ہے
مہ و ستارہ تو آئنے کے وجود سے منحرف ہوئے ہیں
مگر تری چشم مہرباں کو چراغ سے گفتگو وہی ہے
الجھ رہا ہے کوئی ستارہ طلسم اصطخر و نینوا سے
کہ رب ''رع'' کے مقابلے میں ہوا ہے جو سرخ رو وہی ہے
بہت گراں ہے مرے شب و روز پر یہ رنگ وصال ساجدؔ
مگر وہی بے کلی ہے دل کی دماغ کو جستجو وہی ہے
غزل
متاع برگ و ثمر وہی ہے شباہت رنگ و بو وہی ہے
غلام حسین ساجد