وصل کی شب تھی اور اجالے کر رکھے تھے
جسم و جاں سب اس کے حوالے کر رکھے تھے
جیسے یہ پہلا اور آخری میل ہوا ہو
حال تو دونوں نے بے حالے کر رکھے تھے
کھوج رہے تھے روح کو جسموں کے رستے سے
طور طریقے پاگلوں والے کر رکھے تھے
ہم سے نادانوں نے عشق کی برکت ہی سے
کیسے کیسے کام نرالے کر رکھے تھے
وہ بھی تھا کچھ ہلکے ہلکے سے میک اپ میں
بال اپنے ہم نے بھی کالے کر رکھے تھے
اپنے آپ ہی آیا تھا پھر مرہم بن کر
جس نے ہمارے دل میں چھالے کر رکھے تھے
حیدرؔ اپنی تاثیریں لے آئے آخر
ہجر میں ہم نے جتنے نالے کر رکھے تھے
غزل
وصل کی شب تھی اور اجالے کر رکھے تھے
حیدر قریشی