ہمیں تو خواہش دنیا نے رسوا کر دیا ہے
بہت تنہا تھے اس نے اور تنہا کر دیا ہے
اب اکثر آئینے میں اپنا چہرہ ڈھونڈتے ہیں
ہم ایسے تو نہیں تھے تو نے جیسا کر دیا ہے
دھڑکتی قربتوں کے خواب سے جاگے تو جانا
ذرا سے وصل نے کتنا اکیلا کر دیا ہے
اگرچہ دل میں گنجائش نہیں تھی پھر بھی ہم نے
ترے غم کے لیے اس کو کشادہ کر دیا ہے
ترے دکھ میں ہمارے بال چاندی ہو گئے ہیں
اور اس چاندی نے قبل از وقت بوڑھا کر دیا ہے
تعلق توڑنے میں پہل مشکل مرحلہ تھا
چلو ہم نے تمہارا بوجھ ہلکا کر دیا ہے
غم دنیا غم جاں سے جدا ہونے لگا تھا
حسنؔ ہم نے مگر دونوں کو یکجا کر دیا ہے
غزل
ہمیں تو خواہش دنیا نے رسوا کر دیا ہے
حسن عباس رضا