آئنے میں عکس کھلتا ہے گل حیرت نہیں
لوگ سچ کہتے ہیں آنکھوں سی کوئی نعمت نہیں
اب بہر صورت سر میداں اترنا ہے مجھے
کارزار عشق سے پسپائی کی صورت نہیں
اس کے ہونے سے ہوئی ہے اپنے ہونے کی خبر
کوئی دشمن سے زیادہ لائق عزت نہیں
سیر کرنا چاہتا ہوں میں جہاں آباد کی
اور رک کر دیکھ لینے کی مجھے فرصت نہیں
عشق پر فائز ہوں اوروں کی طرح لیکن مجھے
وصل کا لپکا نہیں ہے ہجر سے وحشت نہیں
رات وہ آنسو بہائے ہیں کہ میرے قلب پر
صبح کا آغوش وا کرنا مری اجرت نہیں
جس قدر مہمیز کرتا ہوں میں ساجدؔ وقت کو
اس قدر بے صبر رہنے کی اسے عادت نہیں
غزل
آئنے میں عکس کھلتا ہے گل حیرت نہیں
غلام حسین ساجد