EN हिंदी
شکوہ شیاری | شیح شیری

شکوہ

50 شیر

فلک سے مجھ کو شکوہ ہے زمیں سے مجھ کو شکوہ ہے
یقیں مانو تو خود اپنے یقیں سے مجھ کو شکوہ ہے

عبید الرحمان اعظمی




آگے مرے نہ غیر سے گو تم نے بات کی
سرکار کی نظر کو تو پہچانتا ہوں میں

though in my presence you did not converse with my foe
dearest, the aspect of your eye, I certainly do know

قائم چاندپوری




ہاں انہیں لوگوں سے دنیا میں شکایت ہے ہمیں
ہاں وہی لوگ جو اکثر ہمیں یاد آئے ہیں

راہی معصوم رضا




ان کا غم ان کا تصور ان کے شکوے اب کہاں
اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئی

ساحر لدھیانوی




آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو
اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا

سرور عالم راز




شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے

شہریار




چلا جاتا تھا حاتمؔ آج کچھ واہی تباہی سا
جو دیکھا ہاتھ میں اس کے ترے شکوے کا دفتر تھا

شیخ ظہور الدین حاتم