EN हिंदी
شکوہ شیاری | شیح شیری

شکوہ

50 شیر

احسانؔ اپنا کوئی برے وقت کا نہیں
احباب بے وفا ہیں خدا بے نیاز ہے

احسان دانش




آج اس سے میں نے شکوہ کیا تھا شرارتاً
کس کو خبر تھی اتنا برا مان جائے گا

فنا نظامی کانپوری




شکوۂ ہجر پہ سر کاٹ کے فرماتے ہیں
پھر کروگے کبھی اس منہ سے شکایت میری

فانی بدایونی




سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ

فانی بدایونی




کتنے شکوے گلے ہیں پہلے ہی
راہ میں فاصلے ہیں پہلے ہی

فارغ بخاری




تم عزیز اور تمہارا غم بھی عزیز
کس سے کس کا گلا کرے کوئی

ہادی مچھلی شہری




کس منہ سے کریں ان کے تغافل کی شکایت
خود ہم کو محبت کا سبق یاد نہیں ہے

حفیظ بنارسی