EN हिंदी
شکوہ شیاری | شیح شیری

شکوہ

50 شیر

کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے
اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے

حفیظ جالندھری




بدگماں آپ ہیں کیوں آپ سے شکوہ ہے کسے
جو شکایت ہے ہمیں گردش ایام سے ہے

حسرتؔ موہانی




شکوۂ غم ترے حضور کیا
ہم نے بے شک بڑا قصور کیا

حسرتؔ موہانی




رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی

ابن انشا




پا رہا ہے دل مصیبت کے مزے
آئے لب پر شکوۂ بیداد کیا

امداد امام اثرؔ




روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں

اقبال عظیم




سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی
دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے

عرفانؔ صدیقی