میں اپنے دست پر شب خواب میں دیکھا کہ اخگر تھا
سحر کو کھل گئی جب آنکھ میرا ہاتھ دل پر تھا
نہ تھی تا صبح کچھ حاجت چراغ و شمع و مشعل کی
ہماری بزم میں شب جلوہ گر وہ ماہ پیکر تھا
تری اک جنبش ابرو سے عالم ہو گیا ضائع
نظر کر جس طرف دیکھا تو جو دھڑ تھا سو بے سر تھا
تو اس رفتار و قد سے جس طرف گزرا مرے صاحب
ترے فیض قدم سے ہر قدم سرو و صنوبر تھا
نہ تھی پرواز کی طاقت سر دیوار گلشن تک
کہ جو طائر تھا سو صیاد کے ہاتھوں سے بے پر تھا
چلا جاتا تھا حاتمؔ آج کچھ واہی تباہی سا
جو دیکھا ہاتھ میں اس کے ترے شکوے کا دفتر تھا
غزل
میں اپنے دست پر شب خواب میں دیکھا کہ اخگر تھا
شیخ ظہور الدین حاتم