ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود کو میں کہاں جا نکلا
ایک پردہ جو اٹھا دوسرا پردہ نکلا
منظر زیست سراسر تہ و بالا نکلا
غور سے دیکھا تو ہر شخص تماشا نکلا
ایک ہی رنگ کا غم خانۂ دنیا نکلا
غم جاناں بھی غم زیست کا سایا نکلا
اس رہ زیست کو ہم اجنبی سمجھے تھے مگر
جو بھی پتھر ملا برسوں کا شناسا نکلا
آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو
اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا
گھر سے نکلے تھے کہ آئینہ دکھائیں سب کو
لیکن ہر عکس میں اپنا ہی سراپا نکلا
کیوں نہ ہم بھی کریں اس نقش کف پا کی تلاش
شعلۂ طور بھی تو ایک بہانا نکلا
جی میں تھا بیٹھ کے کچھ اپنی کہیں گے سرورؔ
تو بھی کم بخت زمانے کا ستایا نکلا
غزل
ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود کو میں کہاں جا نکلا
سرور عالم راز