EN हिंदी
شکوہ شیاری | شیح شیری

شکوہ

50 شیر

شکوہ اپنوں سے کیا جاتا ہے غیروں سے نہیں
آپ کہہ دیں تو کبھی آپ سے شکوہ نہ کریں

خلش کلکتوی




کوئی چراغ جلاتا نہیں سلیقے سے
مگر سبھی کو شکایت ہوا سے ہوتی ہے

خورشید طلب




مجھے تجھ سے شکایت بھی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے
تجھے اے زندگی میں والہانہ چاہتا ہوں

خوشبیر سنگھ شادؔ




چپ رہو کیوں مزاج پوچھتے ہو
ہم جئیں یا مریں تمہیں کیا ہے

لالہ مادھو رام جوہر




میری ہی جان کے دشمن ہیں نصیحت والے
مجھ کو سمجھاتے ہیں ان کو نہیں سمجھاتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر




چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم
شاید اسی لیے ہے گلا کم بہت ہی کم

محبوب خزاں




ہم گئے تھے اس سے کرتے شکوۂ درد فراق
مسکرا کر اس کو دیکھا سب گلا جاتا رہا

مرزا محمد تقی ہوسؔ