EN हिंदी
شکوہ شیاری | شیح شیری

شکوہ

50 شیر

عشق میں شکوہ کفر ہے اور ہر التجا حرام
توڑ دے کاسۂ مراد عشق گداگری نہیں

اثر رامپوری




ہمارے عشق میں رسوا ہوئے تم
مگر ہم تو تماشا ہو گئے ہیں

اطہر نفیس




وہی حکایت دل تھی وہی شکایت دل
تھی ایک بات جہاں سے بھی ابتدا کرتے

عزیز لکھنوی




گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ

باصر سلطان کاظمی




غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

چراغ حسن حسرت




بڑا مزہ ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ
وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے

داغؔ دہلوی




کہنے دیتی نہیں کچھ منہ سے محبت میری
لب پہ رہ جاتی ہے آ آ کے شکایت میری

from voicing my emotions, love makes me refrain
grievances come to my lips but silent there remain

داغؔ دہلوی