EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

وہ شخص جس کو دل و جاں سے بڑھ کے چاہا تھا
بچھڑ گیا تو بظاہر کوئی ملال نہیں

بشیر بدر




گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ

باصر سلطان کاظمی




یہ تاثیر محبت ہے کہ ٹپکا
ہمارا خوں تمہاری گفتگو سے

بیان میرٹھی




دل محبت سے بھر گیا بیخودؔ
اب کسی پر فدا نہیں ہوتا

بیخود دہلوی




اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا

چکبست برج نرائن




یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا

داغؔ دہلوی




عشق نے جس دل پہ قبضہ کر لیا
پھر کہاں اس میں نشاط و غم رہے

دتا تریہ کیفی