جہاں میں ہم جسے بھی پیار کے قابل سمجھتے ہیں
حقیقت میں اسی کو زیست کا حاصل سمجھتے ہیں
ملا کرتا ہے دست غیب سے مخصوص بندوں کو
کسی کے درد کو ہم کائنات دل سمجھتے ہیں
جنہیں شوق طلب نے قوت بازو عطا کی ہے
تلاطم خیز طغیانی کو وہ ساحل سمجھتے ہیں
ستم ایسے کیے تمثیل جن کی مل نہیں سکتی
مگر وہ اس جفا کو اولیں منزل سمجھتے ہیں
محبت لفظ تو سادہ سا ہے لیکن عزیزؔ اس کو
متاع دل سمجھتے تھے متاع دل سمجھتے ہیں
غزل
جہاں میں ہم جسے بھی پیار کے قابل سمجھتے ہیں
عزیز وارثی