EN हिंदी
کبھی قریب کبھی دور ہو کے روتے ہیں | شیح شیری
kabhi qarib kabhi dur ho ke rote hain

غزل

کبھی قریب کبھی دور ہو کے روتے ہیں

اظہر عنایتی

;

کبھی قریب کبھی دور ہو کے روتے ہیں
محبتوں کے بھی موسم عجیب ہوتے ہیں

ذہانتوں کو کہاں وقت خوں بہانے کا
ہمارے شہر میں کردار قتل ہوتے ہیں

فضا میں ہم ہی بناتے ہیں آگ کے منظر
سمندروں میں ہمیں کشتیاں ڈبوتے ہیں

پلٹ چلیں کہ غلط آ گئے ہمیں شاید
رئیس لوگوں سے ملنے کے وقت ہوتے ہیں

میں اس دیار میں ہوں بے سکون برسوں سے
جہاں سکون سے اجداد میرے سوتے ہیں

گزار دیتے ہیں عمریں خلوص کی خاطر
پرانے لوگ بھی اظہرؔ عجیب ہوتے ہیں