کبھی قریب کبھی دور ہو کے روتے ہیں
محبتوں کے بھی موسم عجیب ہوتے ہیں
ذہانتوں کو کہاں وقت خوں بہانے کا
ہمارے شہر میں کردار قتل ہوتے ہیں
فضا میں ہم ہی بناتے ہیں آگ کے منظر
سمندروں میں ہمیں کشتیاں ڈبوتے ہیں
پلٹ چلیں کہ غلط آ گئے ہمیں شاید
رئیس لوگوں سے ملنے کے وقت ہوتے ہیں
میں اس دیار میں ہوں بے سکون برسوں سے
جہاں سکون سے اجداد میرے سوتے ہیں
گزار دیتے ہیں عمریں خلوص کی خاطر
پرانے لوگ بھی اظہرؔ عجیب ہوتے ہیں
غزل
کبھی قریب کبھی دور ہو کے روتے ہیں
اظہر عنایتی